لوک داستان اور ان کا پیغام ۔۔۔تحریر: حافظہ اجالا رزاق (ساہیوال )
ہماری لوک داستانیں ہمیں کیا سکھاتی ہیں؟ یہ ہیر رانجھا، لیلہ مجنوں، سسی پنوں، سوہنی مہیوال اور صاحبا مرزا یہ سب کہانیاں اور ان موضوع پر مبنی دیگر فلمیں ہمیں کیا سبق دیتی ہیں؟ یہ سب ہمارے اندر کن اخلاقی قدروں کا اضافہ کرتیں ہیں؟ میں نے مختلف لوگوں سے ان کی آرا لیں۔ایک نے کہا کہ محبت نہیں کرنی چاہیے تو کسی نے کہا محبت ہو بھی جائے تو ملتی کہا ہے تو کسی کے مطابق دوسروں کے معاملات میں ٹانگ نہیں اڑانی چاہیے جیسے کیدو نے ہیر کے معاملے میں اڑائی تھی۔ لٹریچر کا بنیادی مقصد قارئین کے اندر اخلاقی اقدار کا اضافہ کرنا اور انہیں اچھے یا برے طریقے سے متاثر کرنا ہے تو وہیں لٹریچر کا ایک مقصد قارئین کو خوشی فراہم کرنا بھی ہے۔ یہ لوک داستانیں لٹریچر کے پرائمری اور سیکنڈری مقاصد دونوں کو پورا کرنے میں بڑا اہم کردار ادا کرتیں ہیں۔ یہ داستانیں پڑھ کر ہمیں بہت حد تک اس دور کی اقدار اور کلچر کے بارے میں آگاہی ملتی ہے۔ یہ لوک ورثہ محبت کے موضوع کو زیر بحث لا کر اس کے وصل و فراق کے پہلو کا زیر غور مطالعہ کرتا ہیں۔ دو کرداروں میں کس طرح محبت جنم لیتی ہے، نازکوں سے پلی محبت کس طرح اپنے طے کردہ مراحل طے کرتی ہے اور کس طرح رکاوٹوں کو عبور کرتے ہوئے بتدریج اپنے انجام کو پہنچتی ہے یہ سب ایک بہترین کہانی کا روپ دھار کر لوک داستانوں کی صورت میں ہم تک پہنچا ہے۔ محبت ایک فطری جذبہ ہے جس کی موجودگی کے احساس سے آنکھیں چرانا بالکل ایسا ہی ہے جس طرح کبوتر کا بلی کو دیکھ کر آنکھیں بند کرنا۔ Eve’s Diary ایک کہانی ہے جسے مارک ٹوین نے لکھا ہے جس میں وہ ہمیں یہ بتاتا ہے کہ جس دن حضرت آدم اور حوا کو اس زمین پر اتارا گیا تھا محبت نے اسی دن اس زمین پر جنم لیا تھا۔ خدا نے انسان کو نامکمل بنایا ہے اور اس ادھورے پن کو پورا کرنے کیلئے وہ ہمیشہ سے سرگرداں رہا ہے اور زندگی کی جمع تفریق کرنے کے بعد وہ محبت کی ہی چھاؤں میں آکر خود کو سستاتا ہے۔ وہ ایک مستقل سرائے کی تلاش ایک عارضی سرائے میں کرتا ہے اور اسے ہی ابدی سمجھ کر اس کے قدموں میں ڈھیر ہوجاتا ہے۔ ان لوک داستانوں میں جو چیز بڑے پیمانے پہ ہمارے سامنے آتی ہے وہ یہ ہے کہ جب ہم خدا کو پس پشت ڈال کر بشری تقاضوں کو حرف آخر سمجھتے ہیں تو خدا ہمیں اس دنیا کے پیچھے تھکا دیتا ہے ہم غیر ضروری کاموں میں الجھ کر رہ جاتے ہیں۔ محبت جب مقرر کردہ حدود سے یا دائرے سے باہر نکلتی ہے تو انسان کو ذلیل کرواتی ہے اور اس کا انجام بھی انہیں داستانوں کے کرداروں کی طرح افسوسناک اور دردناک ہوتا ہے اگرچہ ان کہانیوں کے کرداروں کو آج اور آج سے پہلے بہت پذیرائی ملی اور لوگوں بے انہیں پرفیکٹ محبت کی داستانیں قرار دیا مگر ان کرداروں کے خود کے ساتھ کیا ہوا ہم اس چیز سے بخوبی آگاہ ہیں۔ محبت کرو خود سے، لوگوں سے اور اس دنیا سے مگر خدا کی محبت کو بے قدرا کر کے نہیں۔ جہاں ہم ان شاہکاروں سے لطف اندوز ہوتے ہیں وہیں ہمیں ان سے محبت اور اس کے قواعد و ضوابط سے آگاہی بھی ملتی ہے۔ محبت اور جنگ میں سب کچھ جائز نہیں ہوتا بعض اوقات بہت کچھ ناجائز بھی ہوتا ہے۔ یہ انسان پر مبنی ہے کہ اس نے محبت کے کس طریقے کار کو اپنانا ہے(تحریر: حافظہ اجالا رزاق ،ساہیوال )
0