0

اپنی ذات ۔۔ تحریر: نزہت ایوب کاظمی (اسلام آباد )

اپنی ذات میں
سیدہ نزہت ایوب کاظمی (اسلام آباد )

ہم بھلا دنیا کھوجنے کیا نکلیں۔ہم تواپنی ذات میں ہی اِک جہان ہیں۔جس کے راز پانا جوئے شیر لانے کے برابر ہے۔ایسے ہی تو خُدائے متعال نہیں کہتا کہ مجھے جاننا،پہچاننا چاہتے ہو تو پہلے اپنی شناخت کرو،پہلے خود کو پہچانو۔اور ہم اِک یہی کام چھوڑے بیٹھے ہیں۔دوسروں کے راز جاننا،دوسروں کے بارے جاننا ہماری زندگیوں کا بس یہی نصب العین رہتا ہے۔ہمیں صرف یہی فکر اپنے گھیرے میں رکھتی ہے۔کون کیا کر گیا۔کدھر گیا؟ کیوں گیا؟قدرت کے فیصلے تو یہ ہیں کہ ہم ایسے کاموں سے باز رہیں……….۔
مگر ہم قدرت کے اِس حکم کے منافی چلتے ہیں۔جس کا نقصان ہمیں لازم جھیلنا پڑتا ہے۔ویسے بھی!
خود کی پہچان کا ایک نام انسانیت بھی تو ہے۔جو خُدائے مُطلق کے حکم کی پاسداری کرتے ہوئے خود کو پہچان لیتا ہے اُسے انسانیت سے عشق ہو جاتا ہے۔وہ دنیا اور دنیا داروں سے نظریں چرانے لگتا ہے۔اُس کا دل کبھی بھی دنیا کی رنگینی میں نہیں اٹکتا وہ جان جاتا ہے کہ دنیا صرف اور صرف امتحان کی جگہ ہے۔وہ ہر شے کو بڑی گہری نگہ سے دیکھ رہا ہوتا ہے۔ جیسے ہی وہ اصل حقائق سے آگاہی پا لیتا ہے۔اُس کا یقین پختہ ہو جاتا ہے کہ جو ظاہر میں اُسے دکھائی دیتا ہے وہ حقیقت میں کچھ اور ہے۔
اُس کے من کے صحرا میں ہر سو سبزہ زار اُگ آتا ہے جہاں رنگ برنگے خوشبو دیتے پھولوں کی باس اُس کے دماغ کو معطر رکھتے ہیں۔ اُسے اپنے ہی خیالوں میں مگن دیکھ کر دنیا داروں سے کبھی گھمنڈی اور کبھی متکبر کا لقب ملتا ضرور ہے۔مگر ایک نظر اُسے پہچان ہی لیتی ہے وہ جو اس کے من کی بندآنکھ۔اِس سے پہلے وہ چاہتا ہے اپنی حالت ِ زار سنانا۔باتوں کو سمجھانا۔الجھی زندگی کے مسائل کو سلجھانا اور تصویر کا وہ رُخ دکھانا جو اُسے نظر آرہا ہوتا ہے۔مگر………………..کوئی اس کی بات سمجھے تب ناں۔اس کے بعد پھر کوئی فرق نہیں پڑتا۔یہ سب ان کے لئے جو خود کو پہچان لیتے ہیں۔
قرآن وسوسہ کرنے سے منع فرماتا ہے۔ یکدم قسمت بدلنے کا گر قرآن میں واضع ملتا ہے (تبھی تو اسے نسخہ ء کیمیا کہا گیا ہے)مثال کے طور پر ہمیں جیسے ہی وسوسہ آئے اگر تو ہم نے اسے خود پر سوار کر لیا تو ابلیس ابنِ آدم ؑ کا ازلی دشمن اپنے وار میں کامیاب ہو گیا۔اور اگر ہم نے فورا ً قرآنی آیت کو سوچتے اس وسوسے کو دماغ سے جھٹک دیا تو ہم فوراً خالق کی پناہ میں آجاتے ہیں۔
ایک تجزیہ سالہا سال سے جاری ہے اور وہ یہ کہ ہمارا جسم بوڑھا ہو جاتا۔(جس کا غم موت کی صورت ہر بوڑھا ہو جانے والے جسم کو ہی کھا جاتا ہے)ہاں مگر نہیں ہوتی بوڑھی تو ہماری سوچ،فِکر،تدبّر،ہمارے نظریات و افکار یہاں تک کہ جسم مر جاتا ہے پر انہیں موت بھی نہیں یہ لافانی ہیں لہذا ہمیں فانی شے یعنی جسم کو اس کی ضروریات تک محدود رکھنا چاہئے۔
ہم جو فانی شے کے عشق میں غرق ہو کر واقعی غرق ہو جاتے ہیں۔ہمیں فکر کرنی چاہئے تدبّر سے کام لینا چاہئے،دانشوری کا مظاہرہ کرکے اپنے نظریات و افکار کے معیار کو بلند رکھنا چاہئے۔ ہم جب لافانی چیزوں سے عشق کریں گے یقینا ہماری خودی کا معیار انسانیت کی معراج پر ہوگا۔وقت ہم سے اسی بات کا تو تقاضا کررہا ہے۔اور جو وقت کے اس تقاضے کو نہ نبھا سکاپھر اشہبِ زماں اُسے روندتا چلا جاتا ہے۔ دعا ہے ہمیں ہمارا خالق زندگی کی ہر ڈگر پر کامران رکھے۔آمین
میرے محترم قاری ہم جو فطری تقاضوں کو نبھاتے ہماری زندگی سہل اور یہ زمیں حُسین ہوتی۔مُسلمان ہونے کی حثیت سے طبیعت گر سادہ پسندرکھتے تو ایک فائدہ یہ بھی ہوتا کہ کفایت شعاری جس کا ہمیں خالقِ حقیقی سے حکم ملا ہے ہماری ذات کا حصّہ ہوتی۔ ہم کافی سے زیادہ مصیبتوں سے چھٹکارا پا لیا کرتے جبکہ وہ ہماری طرف بڑھ رہی ہوتیں۔
اپنے با ادب قاری کی خدمت میں شیخ سعدی (رح)کا ایک قول رکھتی ہوں۔آپ فرماتے ہیں کہ خاندانی معاملات نبھاتے ہمیں یہ نہیں دیکھنا چاہئے کہ (مرد)باپ،بھائی،شوہر یا بیٹا طرف داری (ماں، بہن، بیٹی یا بیوی)کس مستور کی کر رہا ہے۔
بلکہ سمجھنا یہ چاہئے کہ اسے خالق ِ اعظم نے زیرک نگہء منصف بنا کے بھیجا ہے لہذا فطری عدل کا تقاضا ہے کہ مستورات کے بیچ اٹھنے والے تقاضے میں مرد کی منصفانہ نگہ جس طرف اُٹھے چاہے وہ ماں،بہن،بیوی یا بیٹی ہو……وہی حق پہ ہوگی(اگر ماؤں نے اپنی بیٹوں کی تربیت خالق کی رضا کے عین مطابق کی ہو) اپنے معملات سدھارنے میں ہی زندگی کا سکون ہے۔
حال کے آئینے میں مستقبل کا ماحول دیکھنے والی آنکھ کے سو بار یہ دل صدقے۔ علی ابنِ ابی طالب ؑ فرماتے ہیں کہ دنیاداروں کے ساتھ نہ رہنا کیوں کہ اگر تمہارے پاس کم پونجی ہو گی تو حقیر سمجھیں گے۔زیادہ ہو گی تو حسد کریں گے۔
آپ ؑ کے اس فرمان سے ہمیں درس مل رہا ہے کہ انسانی زندگی میں ایسا بھی ہوتا ہے کہ روپیہ پیسہ آج ہے کل نہیں۔دونوں صورتوں میں ہی کفایت شعاری کا دامن ہاتھ سے نہ چھوٹے۔آپ ؑنے ہمیں اپنے چھوٹے سے فرمان کے ذریعے زندگی کا بہترین اصول سمجھا دیا۔اس فرمان میں دین کی تبلیغ بہت مختصر سے جملے میں بیان کرنا یقینا آپ ؑ ہی کا اعزاز ہے۔
اس سے بڑھ کر کام کی بات اور کیا ہو گی کہ زندگی کی کوئی ہو ڈگر،مختصر یا طویل ہو سفر،راہ سہل ہو یا پُر خطر…….ہمیں دنیاداروں سے بچنا ہے ہر سانس،ہر پل،ہر گھڑی،ہر قدم۔

اس خبر پر اپنی رائے کا اظہار کریں

اپنا تبصرہ بھیجیں