لمحہ فکریہ ۔ تحریر: محمد عثمان کھوکھر
ہمارے معاشرے میں وہ کچھ ہو رہا ھے جسکے بارے میں کہنا تو محال بات کرنے میں حیاء آتی ھے ،
ایک نہیں ہزاروں روز واقعات ہوتے ھیں,
مگر ہم انھے اخبار کی اک خبر سے زیادہ اہمیت نہیں دیتے ۔
اور وہ واقعات و واقعہ کا خونخوار ازدھا روز تھوڑا تھوڑا سارے معاشرے کے امن کو نگل رہا ہوتا ھے۔
واقعہ یوں ھے کہ،
ایک لڑکی جوانی کی دہلیز اور عقل کے کچے کوٹھے کی ابھی نئی نئی مکین بنتی ھے اور ایسے میں عین اسی حالات و واقعات کا مکین لڑکا۔
جو ڈرامہ و فلم اور کہانیوں سے متاثر کچی جوانی کے پہلے الاو کے بھبکوں میں جل رہا ہوتا ھے۔
اور اسی جلن میں وہ اٹھتی ہی کافر جوانیوں کی انگڑائیوں کی مستیوں اور خیالوں میں غرق اپنے ہی پڑوس ،محلے کی لڑکی پر دل دے بیٹھتا ھے۔
محبت ،عہد، وفا اور جینے مرنے کی قسمیں سب طے ہونے کے بعد ان بھڑکتے الاو کو وہ دونوں ٹھنڈا کرتے رہتے ھیں۔۔
کچھ واقعات افیئر میں بدل جاتے ھیں اور کچھ محبت کے آسیب میں مبتلا ہوجاتے ھیں ۔
رشتے بیجھے جاتے ھیں ,
پھر مناسب اور غیر مناسب، والدین کے حقوق ، اور یہ وہ سب باتیں جاری ہوتی ھیں ،
مگر ان سب باتوں سے ڈرتے ہوئے آسیب زدہ محبت کے مارے سب معاشرتی راویات کو روندتے ہوئے بھاگ جاتے ھیں ۔۔۔
یاآپس میں کورٹ میرج کر لیتے ھیں ۔
گھر والوں کو دھیان ہوا ، عزت و ملامت کا خطرہ پڑا، تو لڑکی والوں نے اس حماقت کا یہ حل نکالا،
غیرت کے نام پر قتل کر دو یا جلدی سے شادی ۔۔۔۔۔!!
دور پاس قریب سے لڑکا ڈھونڈا گیا ، اور نہ چاہتے ہوئے شادی کر دی گئ ۔
پھر وہی ہوتا ھے جو نہیں ،ہونا چاہیے ،۔۔
سوشل میڈیا پر ان بھڑکتے ہوئے الاوں کو ٹھنڈا کرنے کے سب مناظر اپ لوڈ کر دئیے جاتے ھیں ۔
یوں الاو سے بھڑکتی ہوئی محبت کا انجام باالاآخر انتقام پر ختم ہوتا ھے۔!!!
خاندان لڑتے، گھر ٹوٹتے اور آخر کار قتل و غارت پر نہ ختم ہونے والا سلسلہ شروع ہو جاتا ھے
معاشرہ اور معاشرے کا سب امن غارت ہو جاتا ھے۔۔۔
معاشرتی رویوں کا نہ ختم ہونے والا سلسلہ شروع ہوجاتا ھے
توبہ ،استغفار خدا ایسی گندی اولاد کسی کو نہ دے
ایسے جملے کہے،سنے جاتے ھیں اور پھر سب اپنے اپنے کاموں میں مصروف ۔
کبھی کسی نے سوچا ھے ایسا کیوں ہو رہا ھے ۔؟
اس کے اسباب محرکات کیا ھیں ؟
میں کہتا ہوں خدا سب کو اولاد دے، ہاں مگر کسی اولاد کو لاپرواہ والدین نہ دے ،
حضور ہمارے بچوں کا کوئی قصور نہیں۔۔!!
ہم نے انکو دیا کیا ھے، ؟
ابھی وہ حرف ولفظ سے واقفیت ہی سیکھ رہے تھے اور ہم نے انکے معصوم ذہنوں میں عورت کو وہ شے کر کے پیش کر دیا جو حصول زندگی کا شاید واحد مقصد ہو ۔
١۔کاش میں تیرے حسین ہاتھ کا کنگن ہوتا ،
تم مل جاو تو دنیا چھوڑ دینگے ہم ،
٣۔تیری آنکھوں کے سوا دنیا میں رکھا کیا ھے ،۔
اور جانے کیا کیا ؟
در اصل یہ جو ہوس رسیا ادبی غنڈے ھیں یہی معاشرے کی بد امنی کے ذمے دار ھیں۔
آپ اپنا ادب پڑھ لیں ،اس میں عورت کے علاوہ کچھ اور بھی ھے ،
بدن سے کاکل ،کمر سے ہونٹ کی پنکھڑی ، آنکھ کے تاروں تک کی تشبہات کے علاوہ اور ھے ہی کیا؟
سنجیدگی سے ہمیں اپنے ڈارمہ ،فلم اور ادب کو دیکھنا ہو گا ۔
کن مقاصد کیلیئے یہ بن رہے ھیں ، اور انکے نتائج کیا نکل رہے ھیں ۔؟
ہمیں اولاد کو وقت دینا ہوگا ،
ہمیں انکو شے ، چیزوں اور جذبوں کا احترام کرنے کی تعلیم خود دینا ہوگی ،
ہمیں لڑکی اور لڑکے کے بدلتے ہوئے جسموں کے ساتھ انکے ذہن میں آنے والے خیالوں کو مثبت سوچ اور شرم حیاء کا سبق سختی سے نہیں بلکہ پیار سے پڑھانا اور سمجھانا ہوگا۔
حقیقت میں کہوں تو ہمیں اپنی اولاد کو مان عزت اور احترام دینا ہوگا تاکہ وہ یہ چیزیں باہر سے نہ ڈھونڈیں۔
اور آگاہ رہیں ،نصحیت پکڑیں رسول عربی کی بات کے خلاف مت کریں ،
وقت_ نکاح اپنی اولاد سے پوچھ لیں ،
اور بالخصوص لڑکی سے پوچھ لیں ، مناسب اور غیر مناسب والی بات پر ڈسکس کر لیں ،وقت دیں قائل کرنے کی کوشش نہیں بلکہ احسن انداز سے سمجھانے کی کوشش کریں ،
مگر پھر بھی اصرار قائم رہے ، تو پورا کر دیجیئے
خیر البشر حضرت محمد سے پو چھا گیا دو مجنون ، آسیب محبت زدوں کا حل کیا ھے ؟
آپ رحمت العالمین نے فرمایا !
انکو بس آپس میں ملا دیجیِے ،
اسی حکمت پر غور کجیئے، یہ معاشرے میں امن کا فارمولا ھے ،
اللہ تعالی ہم سب کا حامی و ناصر ہو !
