پتھر کی عورت در نجف
وہ کسی مصور کا شہکار تھا۔ میری آنکھیں اس پہ جم سی گئیں۔
”کیا دیکھ رہی ہو؟
میری پتھرائی آنکھوں میں جمے ہوئے خواب؟ یا اشک فشانی کی تیز دھار۔۔۔ جس نے میرے رخساروں پہ خط کھینچے ہیں جو مٹنے کے نہیں؟ سنو! میں لفظوں کی بھینٹ چڑھی عورت ہوں، میرے زبان پہ چپ کی بھاری سل ہے جس کے نیچے لفظ دب چکے ہیں۔ مہر بہ لب۔۔۔ میرے چہرے پر لکھی اذیت کی ان گنت تحریریں صرف تم پڑھ سکتی ہو۔ جانتی ہو کیوں؟ اس لئیے کہ تم بھی عورت ہو اور تم مجھ میں اپنا عکس دیکھ رہی ہو۔“
