گوہر نایاب
کائنات یوسف
گوہرِ نایاب کے لفظی معنی”قیمتی موتی”کے ہیں۔مجازی معنوں میں یہ کسی خاص چیز کے لیے مستعمل ہوتا ہے۔
رب رحمٰن نے مخلوقات کو زمین پر اتارا تو انسان کو نائب بنا کر شرف بخشا۔اسی فضیلت کی بِنا پر ہر انسان کی ذات میں کچھ ایسے عناصر رکھے جو اسے گوہرِ نایاب بناتے ہیں۔انسانی مخلوق وہ سکہ ہے جس کا ایک رُخ آدم ہے تو دوسرا رُخ حوّا ہے۔اگر اس سکے کے ایک پہلو”عورت”پر تفصیلی التفات کیا جائے تو ادراک ہوتا ہے کہ عورت ہی معاشرے کا وہ قیمتی موتی ہے،جو نہایت پرکشش اور جاذب نظر ہونے کے باوجود حیا کے پردے میں خود کو چھپا کر وقار کا لبادہ اوڑھ لیتی ہے۔یہی اوڑھنی اس موتی کو جوہرِ یاقوتی سے بھی زیادہ معتبر کرتی ہے۔کیونکہ عورت ایک ایسا گوہر ہے جو اپنی حیا اور وفا کی بنیاد پر ہی گوہر نایاب کی مجاز ٹھہرتی ہے۔اگر یہی اعلیٰ کردار بنتِ حوا کی ذات میں نا رہے تو وہ ایک حقیر پتھر بن کر چوراہے کی ٹھوکروں میں ہوتی ہے۔گویا صنفِ نازک وہ سیپ ہے جس میں چھپا حیا کا موتی سمندروں کی گہرائی کے باوجود بھی گوہرِ نایاب ہے
0