2 of 73
Rizwan Anjum
Rizwan Anjum
کشمیر کی تاریخ اور موجودہ صورتحال۔۔
اب تک کی تحقیق یہی بتاتی ہے کہ اس جنت نظیر وادی یعنی “وادئ کشمیر” کی تاریخ تقریبًا چار ہزار سال پرانی ہے۔۔ ساڑھے چار ہزارسالہ طویل تاریخ کے حامل اس خوبصورت خطے نے تاریخ کے ان گنت اتار چڑھاؤ دیکھے۔ یہ وادی اپنی خوبصورتی کی وجہ سے ہمیشہ سے سب کا خواب رہی۔۔ ہر دور کے ہر حاکم نے اسے اپنی جاگیر بنانا چاہا مگر مقامی اقوام نے احسن طریقے سے اس کا انتظام و انصرام سنبھالے رکھا۔۔۔ کئی بیرونی چیرہ دست بھی آئے اور برسوں تک یہاں کے مقامی باشندوں کا استحصال کرتے رہے۔ مورخین کے مطابق کشمیر کی ساڑھے چار ہزار سالہ معلوم تاریخ میں سے صرف 6 سو ساڑھے چھ سو سال ایسے ہیں جن میں یہاں بیرونی حکمرانوں کا قبضہ رہا۔
مگر اس حقیقت سے انکار ممکن نہیں اور تاریخ، عمرانیات اور سماجیات کے ماہرین اس بات کو تسلیم کرتے ہیں کہ کشمیر ہر دور میں اپنی ایک مخصوص تہذیب اور ثقافت کے ساتھ تاریخ کے صفحات میں زندہ رہا۔
کشمیر کے حسین لوگوں نے پے در پے مظالم ،ناختم ہونے والے المیوں اور جبرِ مسلسل کے ماحول میں بھی اپنے حواس نہیں کھوئے ۔ کشمیری نہ صرف اپنے اپنے ادوار میں اپنی تہذیب و ثافت کی حفاظت کرتے رہے بلکہ وہ اس کے ساتھ ساتھ بنیادی انسانی اقدار کی برابر پرورش کرتے رہے۔ ادب ، سادہ خوش لباسی ، موسیقی اور آرٹ کشمیریوں کی زندگی کے لازمی جزو ہیں۔
1846ء میں ڈوگرہ حکمران مہاراجہ گلاب سنگھ (والی ٔ جموں)نے انگریزوں کو تاوان ادا کر کہ انگریز سرکارسے معاہدہ امرتسر کے تحت یہ ریاست حاصل کی اور یہاں پر شخصی حکومت کی بنیاد رکھی۔ اس کے بعد یہاں کے باشندوں پرانسانیت سوز مظالم ڈھانے کا سلسلہ شروع ہو گیا۔ مہاراجہ کی طرف سے یہاں کی مظلوم عوام پہ جینے کے لئے ہر چیز پہ ٹیکس لگا دیا یہ سمجھ لیں اس نے ہوا (آکسیجن) کے علاوہ ہر چیز پر ٹیکس عائد کر دیا تھا۔
موجودہ صدی کو تہذیبوں کی ترقی کی صدی کہا جاتا ہے ۔انسانی حقوق کی بات بھی اس عہد میں قدرے بلند آہنگ کے ساتھ کی جارہی ہے۔ اس بلندئ آہنگی پہ بھی سرمایہ دارانہ نظام کا تسلط ہے۔ آئیندہ کے لئے یہ بھی کہا جارہا ہے کہ اب اقوام اور ممالک کے رشتے معاشی بنیادوں پر قائم ہو ں گے۔ اب بہت سے ملکوں میں سفر کرنے کے لیے سرحدوں کی غیر ضروری بندشوں کو ختم کیا جاچکا ہے لیکن 72 برس سے ٹکڑیوں میں بٹے ہوئے خطۂ کشمیر کے باسی جبر واستبداد کی طویل سیاہ رات میں آج بھی آزادی کے سورج کے لئے بحالتِ قیام دعاگو ہیں۔۔۔
ان سات دہائیوں میں ریاست جموں وکشمیر کے باشندوں نے آزادی کی صبح دیکھنے کے لیے کیا کیا جتن نہیں کیے۔ سیاسی جد وجہد سے ابتداء ہوئی۔ یہ سلسلہ دو چار آوازوں سے شروع ہوا جو آگے چل کر قافلہ بن گیا۔ جب سیاسی جد وجہد کارگرہوتی دکھائی نہ دی تو یہاں کے باشندوں میں اپنے گھائل جسموں کی ساری بچی کھچی توانائیاں کام میں لاکر مسلح مزاحمت کی کوشش کی ۔ وہ ظلم کی قوتوں کے ساتھ ٹکراتے رہے، کٹتے رہے اور گرتے رہے مگر آج تک ان کا وہ خواب شرمندۂ تعبیر نہ ہو سکا ۔
تقسیم ہند کے زمانے میں کشمیریوں کا پاکستان کے ساتھ جذباتی لگاؤ ایک فطری چیز تھی کیونکہ ان کا واسطہ اکثر ایسے حکمرانوں سے پڑا جو غیر مسلم تھے۔ اس وقت کشمیری خود کو پاکستان کے ساتھ زیادہ محفوظ تصور کرتے تھے۔اِدھر پاکستان کے عام باشندے بھی انہیں اپنا بھائی سمجھتے تھے۔ تقسیم ہند کے سال یعنی 1947ء میں پاکستان نے عالمی فورموں پر کشمیر کے وکیل کا کردار لیا اور کشمیریوں کے حق خود ارادیت کی پرزور حمایت کی۔ دوسری جانب بھارت نے وادی کے باشندوں پر ظلم وستم کا سلسلہ جاری رکھا مگر یہ سب ظلم و ستم کشمیریوں کے عزم و ہمت اور جذبۂ حریت کو مات نہ د سکا۔
مودی کی دوسری اننگ کے آٹھ مہینے پورے ہوئے لیکن ان آٹھ مہینوں میں پورے ہندستان کو اس نے تگنی کا ناچ نچادیا۔ گزشتہ روز شہریت ترمیمی بل پاس ہونے کے بعد ملک میں جو اندھیرا پھیل رہا تھا وہ مزید پھیل گیا اور گہرا ہوگیا۔ ایسا نہیں ہے کہ اندھیرے کے بعد روشنی یا رات کے بعد صبح نہیں ہوتی ؎ ’لمبی ہے غم کی شام مگر حوصلہ رکھو‘۔ دوسری بار اقتدار پاتے ہی اس بدبخت نے 370 اور 35Aدفعات ہٹاکر کشمیر کو دو حصوں میں تقسیم کردیا اور کشمیریوں کو ہر طرح کی آزادی اور حق سے محروم کردیا۔ چار مہینے سے زائد ہوگئے مگر شروع دن سے آج تک صورت حال جوں کا توں ہے۔ دنیا کو بتایا جارہا ہے کہ کشمیر میں حالات پورے طور پر نارمل ہیں مگر ایسا ہرگز نہیں۔
کشمیری باشندے کئی دہائیوں تک حالات کے تھپیڑے کھانے کے بعدکافی باشعور ہو چکے ہیں۔ کشمیر اور پاکستان کے علاوہ دنیا کے مختلف ممالک میں مقیم کشمیری ایک بار پھر اپنی مکمل آزادی کے لیے منظم ہو رہے ہیں۔ اب کی بار وہ اسلحے کی بجائے سیاسی عمل سے منظم طریقے سے لڑینگے تو ضرور کامیابی ملے گی۔ مگر اس کے لئے دیگر مسلم ممالک کے سربراہان کو بھی اپنا کردار ادا کرنا پڑے گا۔۔
