پہاڑی زبان
عبدالسبحان ملک متعلم وفاقی اردو یونیورسٹی آرٹس سائنس اینڈ ٹیکنالوجی اسلام آباد کیمپس
زبان دنیا کے انسانوں کے درمیان رابطے کا ایک مؤثر ذریعہ ہے۔ انگریز ماہر اصوات اور ماہر لسانیات ہنری سویٹ نے زبان کی تعریف کچھ یوں کی ہے:
“زبان ہمارے خیالات اور تصورات کا وہ اظہار ہے جو گفتاری آوازوں کو جملوں میں ڈھال کر پیش کرئے ۔” اسی طرح امریکی ماہر لسانیات برنارڈ بلاج اور جارج ایل ٹریگر نے زبان کی تعریف میں کچھ اس طرح سے لکھا ہے۔ “زبان من مانی آواز کی علامتوں کا ایک نظام ہے جس کے ذریعہ ایک سماجی گروہ تعاون کرتا ہے۔” ایک اندازے کے مطابق دنیا میں اس وقت سات ہزار کے لگ بھگ زبانیں بولی جا رہی ہیں۔ روئے زمین پر انسان غالبا وہ واحد تخلیق ہے جو اپنے خیالات و احساسات کا اظہار زبان سے کرتی ہے۔ زبان کی عمر کا اندازہ لگانے کے لئے آثار قدیمہ کے ماہرین نے ایشیاء، یورپ اور افریقہ میں قدیم غاروں کا کھوج لگایا ہے، جن کے اندر مصوری اور سنگ تراشی کے وہ نمونے ملے ہیں، جو لگ بھگ ۳۵۰۰۰ سے ۱۰٬۰۰۰ قبل مسیح پرانےہیں ۔ مختلف ماہرین نے مصوری اور سنگ تراشی کو زبان ہی کی ایک قسم کہا ہے اور یہ دعوی کیا ہے کہ لکھنے کے لئے زبان پر عبور حاصل ہونا ازحد ضروری ہوتا ہے۔
ہندکو زبان بھی پاکستان کی علاقائی اور ادبی زبان تصور کی جاتی ہے۔ پاکستان کے صوبے خیبر پختونخواہ ، کشمیر میں نیلم ویلی اور اس کے گردونواح میں بولے جانی والی زبان ہندکو کا شمار دنیا کی قدیم ترین زبانوں میں کیا جاتا ہے۔ لفظ ہندکو کا مطلب ہند کے پہاڑ ہے جو فارس کے علاقوں میں تمام ہمالیہ کے سلسلے کے لیے استعمال کیا جاتا ہے۔ اگرچہ اس زبان کو بولنے والوں کا کوئی خاص حوالہ نہیں ہے۔ یہ مختلف قوموں اور علاقوں سے تعلق رکھتے ہیں لیکن ہزارہ ڈویژن کے مکین ہزارے وال اور کشمیر نیلم کے باسی کشمیری پہاڑیے ہندکووان کہلاتے ہیں جب کہ پشاور میں ان کو خارے کے نام سے پکارا جاتا ہے جس کا مطلب پشاور شہر کے آبائی ہندکووان لیا جاتا ہے۔ ہندکوزبان پاکستان کی ان نو زبانوں میں شامل ہے جو نہایت قدیم ہونے کے ساتھ ساتھ ایک خطے کی ثقافت کی امین بھی ہیں۔ علاقے کی بہت سی دوسری بولیوں کے برعکس ہندکو زبان کا اپنا رسم الخط اور اسلوب ہے جسے شاہ لکھی کہا جاتا ہے، تاہم ہند کو ادبی بورڈ کا قیام اس زبان کی ترقی و ترویج میں سنگ میل ثابت ہوا جس کی بدولت ہند کو ڈکشنری، قرآن پاک کا ہندکو ترجمہ اور ہند کو سلیپس کی تیاری جیسے اقدامات ممکن ہوئے۔ اس زبان کو مزید ترقی ہزارہ کے ہند کو شعراء، ادیبوں اور لوک فنکاروں نے اپنے فن کے ذریعے دی۔ پشاوری، کو ہائی، اعوان کاری، تنولی، چھاچھی اور ہزارہ ہند کو لہجوں نے مختلف قومیتوں اور علاقوں کو ایک منفرد شناخت عطا کی ہے جس کے باعث اسے پاکستان کی اہم ترین زبانوں میں شمار کیا جاتا ہے تاہم نسل در نسل منتقل ہونے والے اس تاریخی ورثے کو توجہ اور نگہداشت کی ضرورت ہے جس کی بدولت اسے بولنے والے فخر کے ساتھ آئندہ نسلوں کے لئے اصلی حالت میں محفوظ رکھ سکیں۔
یہ دو لفظ کا مجموعہ ہے “ہند” اور “کو” ہند سے مراد ہندوستان اور کو سے مراد پہاڑ یعنی میرے زہن کے مطابق یہ کہ ہندوستان کے پہاڑی علاقہ میں بولی جانے والی زبان یا پھر ہندوستان کی پہاڑی زبان کہا جاتا ہے۔ ہندکو ویسے پاکستان کے صوبہ خیبر پختونخواہ اور ہزارہ کے اندر بھی بولی جاتی ہے مگر یہ آزاد کشمیر کا رقبے کے لحاظ سب سے بڑا ضلع نیلم اور آبادی کے لحاظ سے تقریبا بڑا ضلع مظفرآباد میں ہندکو زبان بولی اور سجھی جاتی ہے۔ہندکو زبان کو قدیم آریائی زبان کا جانشین قرار دیا جاتا ہے۔ ہندکو زبان کی تاریخ نہایت قدیم ہے۔مؤرخین کےمطابق ریبا ۵۵۰۰ سال قدیم ہے جو کہ گندھارا تہذیب کی تاریخ سے بھی زیادہ پرانی مورخین کے خیال میں پنجابی، سرائیکی اور پہاڑی بولیوں نے ہندکو سے جنم لیا ہے۔ہندکو زبان تقریباً ۵۵۰۰ سال قدیم ہے جو کہ گندھارا تہذیب کی تاریخ سے بھی زیادہ پرانی ہے۔ بعض مورخین کے خیال میں پنجابی، سرائیکی اور پہاڑی بولیوں نے ہند کو سے جنم لیا ہے۔ جدید زبان اردو نے بھی بہت سے الفاظ ہندکو سے مستعار لیے ہیں ۔ اس سے ملتی جلتی زبانیں جیسے پنجابی، سرائیکی، ہندی اور اردو ہزارہ میں آسانی سے سمجھی اور بولی جاتی ہیں۔ ہند کو ہزارہ کے علاوہ پشاور، کوہاٹ، ڈیرہ اسماعیل خان، نوشہرہ، آزاد جموں و کشمیر اور مری کے بعض علاقوں میں بھی بولی اور سمجھی جاتی ہے ۔اس ہندکو قدیم زبان کو انڈو آریان زبانوں کی لاہندہ گروپ سے جوڑا جاتا ہے۔ جیسا کہ پہلے بیان کیا گیا ہے۔
یہ بھی دعوی کیا گیا ہے کہ قبل از اسلام کے دور میں، کی زبان عوام کو قدیم گرامر پنینی نے بہتر کیا، جس نے ایک قدیم زبان سنسکرت کے قواعد کو دستاویزی شکل دی، جو بنیادی طور پر ہندو صحیفوں کے لیے استعمال ہوتی تھی۔ دریں اثنا، پراکرت کہلانے والی عوام کی مقامی زبانیں بہت سی زبانوں اور بولیوں میں تیار ہوئیں جو شمالی پارہ 5/13 ایشیا میں پھیلتی ہیں۔ خیال کیا جاتا ہے کہ ہندکو پراکرتوں سے مشابہت رکھتا ہے، جو کہ انڈو آریائی زبانوں کے گروپ سے وابستہ ہے۔اس بات میں کوئی دو رائے نہیں کہ ہندکو زبان برصغیر کی ایک قدیم اور مروجہ زبان ہے۔ تاہم کشمیر اور ہزارہ کی اس زبان کے اکثر بولنے والے زیادہ تر دیہات میں مقیم تھے اب شہروں میں آباد ہیں مگر اپنی زبان کے سمیت۔خیبر پختونخواہ میں بڑی تعداد ان پشتونوں کی بھی تھی جو آج بھی ہندکو بحیثیت مادری زبان بولنے والوں میں ترین یوسف زئی، جدون، طاہر خیلی، لودھی اور تنولی شامل ہیں جو دراصل پشتون قبائل ہیں۔ اسی طرح کشمیر میں ملک(اعوان) ، پائر ، بٹ ،سید، میر ، قریشی ، خواجہ وغیرہ اور ہزارہ کے بھی دوسرے قبائل جیسا کہ سید،مغل، کڑلال، ترک، قریشی اور اعوان بھی ہند کو بولنے والے ہیں ۔ المختصرزبان ہر لحاظ سے ایک مکمل انسانی میراث ہے۔ روئے زمین پر اس وقت انسان ہی وہ خوش قسمت مخلوق ہے جو اس دولت سے مالا مال ہے۔ زبان ہی انسان کی پہچان ہے اور زبان کی تعریف میرے نزدیک یوں ہے “زبان شائستہ گفتگو، ادب واخلاق اور انسانی فکر کا عملی نمونہ ہے